جوہری ہتھیار دنیا میں کتنے ہیں اور کن ممالک کے پاس ہیں
امریکہ اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران آپ نے کئی مرتبہ جوہری ہتھیاروں کا ذکر سنا ہوگا۔
یہ انتہائی تباہ کن اور مہلک ہوتے ہیں اور ان کے دھماکے اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ صرف ایک جوہری بم پورے شہر کو تباہ کر سکتا ہے۔ ایک جوہری بم سب سے بڑے غیر جوہری بم سے کہیں زیادہ تباہی لا سکتا ہے۔
اس بارے میں بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ کچھ ملکوں کے پاس جوہری بم نہیں ہونا چاہیے جن میں ایران بھی شامل ہے جبکہ کچھ ملک انہیں رکھ سکتے ہیں۔
کس ملک کو انھیں رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے اور کس کو نہیں اس بحث کا احاطہ کرنا مشکل کام ہے مگر ہم نے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں اہم سوالوں کے جواب جمع کیے ہیں۔
جوہری ہتھیار کیا ہیں؟
یہ انتہائی طاقتور دھماکہ خیز ہتھیار ہوتے ہیں۔ آپ نے سکول میں سائنس کی کلاسوں میں ایٹم اور آئسوٹوپ کا ذکر سنا ہوگا۔
یہ دونوں جوہری دھماکہ کرنے میں اہم ہوتے ہیں۔ بم کو ایٹم توڑنے یا ان کے اندر موجود خفیف ذرات کو ملانے سے توانائی ملتی ہے۔ اسی لیے جوہری بم کو اکثر ایٹم بم بھی کہا جاتا ہے۔
جوہری بم تاریخ میں صرف دو بار استعمال ہوئے ہیں سنہ 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے گئے جن سے شدید تباہی اور بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔
ہیروشیما پر گرائے جانے والے بم کے اثرات کئی ماہ تک رہے اور اندازے کے مطابق 80 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ ناگاساکی پر گرائے جانے والے بم سے 70 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد کسی بھی جنگ میں ان کا استعمال نہیں ہوا۔
جوہری ہتھیاروں سے بڑی تعداد میں تابکاری خارج ہوتی ہے۔ دھماکے کے بعد بھی اس کے اثرات طویل عرصے تک رہتے ہیں جس سے متلی، الٹیاں، اسہال، سر درد اور بخار ہو جاتا ہے۔
کن ممالک کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
اس وقت دنیا میں پانچ تسلیم شدہ جوہری ریاستیں امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس اور روس ہیں جبکہ چار دیگر ممالک بھی جوہری ہتھیار رکھتے ہیں
ان میں سے انڈیا، پاکستان اور شمالی کوریا جوہری تجربات کر چکے ہیں جبکہ اسرائیل کے بارے میں یہی خیال ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں تاہم سرکاری طور پر اس کی نہ تصدیق کی جاتی ہے نہ تردید
اندازوں کے مطابق ان ممالک کے پاس کل ہتھیاروں کی تعداد 14 ہزار کے لگ بھگ ہے اور ان میں سے زیادہ تر ہتھیار امریکہ اور روس کے پاس ہیں
امریکی سائنسدانوں کی فیڈریشن کا کہنا ہے کہ 2019 میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق روس کے پاس چار ہزار سے زیادہ جبکہ امریکہ کے پاس چار ہزار کے قریب جوہری ہتھیار موجود ہیں جن میں سے دونوں ممالک میں ایک ہزار سے زیادہ ہائی الرٹ پر ہیں۔
ان کے بعد فرانس کا نمبر آتا ہے جس کے پاس 300 جوہری ہتھیار ہیں۔ چین کے جوہری اسلحے کی تعداد 290 کے لگ بھگ ہے لیکن اس میں تیزی سے اضافے کا امکان ظاہر کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چین جلد امریکہ اور روس کے بعد ایسے ہتھیار رکھنے والا تیسرا بڑا ملک بن جائے گا۔
اس فہرست میں پانچواں نمبر برطانیہ کا ہے جس کے ہتھیاروں کی تعداد 200 بتائی جاتی ہے۔ اس کے بعد دو جنوبی ایشیائی ممالک پاکستان اور انڈیا کی باری آتی ہے جن کے بعد بالترتیب 160 اور 140 جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے۔
فہرست میں آٹھواں نمبر اسرائیل کا ہے جس کے بعد اندازہ ہے کہ 90 جوہری ہتھیار ہیں جبکہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 30 بتائی جاتی ہے۔
جوہری ہتھیار کون بنا سکتا ہے؟
ویسے تو جس کے پاس بھی ٹیکنالوجی، مہارت اور سہولیات موجود ہیں وہ انھیں بنا سکتے ہیں لیکن کس ملک کو انھیں بنانے کی اجازت ہونی چاہیے، یہ ایک بالکل الگ بحث ہے۔
اس کی وجہ ہے جوہری عدم پھیلاؤ کا معاہدہ۔ اس معاہدہ کا مقصد ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکا جائے اور جوہری اسلحے کی تخفیف ہو۔
1970 سے لے کر اب تک 191 ممالک جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے 'این پی ٹی' میں شامل ہوئے ہیں اور اس معاہدے کے تحت پانچ ممالک کو جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستیں سمجھا جاتا ہے جن میں امریکہ، روس، فرانس اور چین شامل ہیں۔
ان پانچ ممالک کو یہ ہتھیار رکھنے کی اجازت ہے کیونکہ انھوں نے جوہری ہتھیار کو تیار اور ان کا تجربہ 1 جنوری 1967 کو معاہدے کے نفاذ سے پہلے کیا تھا۔
گو کہ ان ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، معاہدے کے تحت انھیں بھی ان کی تعداد میں کمی لانا ہو گی اور وہ انھیں ہمیشہ کے لیے نہیں رکھ سکتے۔
اسرائیل نے اپنے پاس جوہری ہتھیار ہونے کا اعتراف کیا ہے اور نہ ہی انکار، پاکستان اور انڈیا 'این پی ٹی' میں شامل ہی نہیں ہوئے جبکہ شمالی کوریا 2003 میں اس معاہدے سے علیحدہ ہو گیا تھا۔
ایران کی صورتحال کیا ہے؟
ایران نے اپنا جوہری پروگرام 1951 میں شروع کیا اور ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا کہ یہ ایک جوہری توانائی کا امن پسند پروگرام ہے۔
مگر شبہ کیا جاتا ہے کہ ایران اس پروگرام کی آڑ میں خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنا رہا ہے جس کی وجہ سے 2010 میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل، امریکہ اور یورپی یونین نے ملک پر کمر توڑ پابندیاں عائد کر دیں۔
اس کے بعد 2015 میں ایران اور دیگر بڑی طاقتوں نے ایک معاہدہ کیا جس میں جوہری پروگرام میں کمی کے بدلے ایران پر سے تجارتی پابندیاں اُٹھائی گئیں مگر صدر ٹرمپ کے فیصلے کے بعد امریکہ مئی 2018 میں اس معاہدہ سے علیحدہ ہو گیا۔
اب یورپی ممالک نے ایران سے معاہدے کی شرائط پر عمل نہ کرنے کے الزام میں اسے چیلنج کیا ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے بعد صدر ٹرمپ نے عہد کیا کہ جب تک وہ صدر ہیں ایران کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی بغداد میں امریکہ کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ایران کا کہنا ہے کہ اب وہ معاہدے کی شرائط پر عمل نہیں کرے گا۔
کیا دنیا کبھی جوہری ہتھیاروں سے پاک ہوگی؟
سنہ 1986 میں دنیا بھر میں موجود جوہری ہتھیاروں کی تعداد 70 ہزار تھی جو کہ اب کم ہو کر اب 14 ہزار ہو گئی ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور روس نے اپنے ہتھیاروں میں کمی کی ہے مگر فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے مطابق چین، پاکستان، انڈیا اور شمالی کوریا مزید ہتھیار بنا رہے ہیں۔
جولائی 2017 میں ایک موقع پر ایسا لگا کہ دنیا جوہری ہتھیاروں سے پاک ہونے کے قریب آ گئی ہے جب 100 سے زائد ممالک نے اقوام متحدہ کے اُس معاہدے کی توثیق کی جس میں ان پر مکمل پابندی لگانے کی بات کی گئی۔
مگر جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس نے اس معاہدہ کا بائیکاٹ کیا۔
برطانیہ اور فرانس نے کہا کہ یہ معاہدہ عالمی سکیورٹی کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جوہری ہتھیار 70 سال سے زیادہ عرصے سے جنگوں کی حوصلہ شکنی کا سبب رہے ہیں کیونکہ تمام ممالک یہ جانتے ہیں جوہری جنگ کوئی نہیں جیت سکتا۔ اس میں سب کی ہار ہے۔
گو کہ امریکہ اور برطانیہ جسے ممالک اپنے جوہری ہتھیاروں میں کمی لا رہے ہیں مگر ماہرین کہتے ہیں کہ وہ اب بھی اپنے موجودہ ہتھیاروں کو جدید طرز پر لا رہے ہیں اور انہیں پہلے سے بہتر بنا رہے ہیں۔
برطانیہ اپنے جوہری ہتھیاروں کے نظام کو جدید بنا رہا ہے اور امریکہ ممکنہ طور پر اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانے کے لیے 2040 تک ایک کھرب ڈالر خرچ کرے گا۔
شمالی کوریا نے تجربات کا سلسلہ اور اپنا جوہری پروگرام جاری رکھا ہوا ہے اور اس نے کچھ ہی عرصہ پہلے اکتوبر میں میزائل تجربہ بھی کیا تھا۔
گو کہ آج دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد 30 سال پہلے کی نسبت کم ہے لیکن یہ اب بھی اتنے ہیں کہ دنیا کو کئی مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں اور عنقریب دنیا ان سے پاک ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
Comments