کورونا وائرس سے لڑنے والے ڈاکٹر کی ڈائری: دواؤں کے مجموعے سے کورونا وائرس کا علاج ممکن

محققین کے مطابق ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک دوا کووڈ 19 کے علاج کے لیے ناکافی ہو، اور اس کے لیے تپ دق کی طرح ہی مختلف دواؤں کے امتزاج کا استعمال کیا جا سکتا ہے

بریڈفورڈ رائل انفرمری (بی آر آئی) کے ڈاکٹر جان رائٹ نے کووڈ 19 کے لیے جاری علاج کی تلاش کے متعلق کچھ ٹرائلز یا آزمائشوں کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تین مختلف قسم کی دوائیوں کا مجموعہ کلیدی حیثیت کا حامل ہو سکتا ہے۔


بریڈفورڈ رائل انفرمری میں اب ہم آٹھ مختلف ٹرائلز میں حصہ لے رہے ہیں تاکہ کووڈ 19 کا علاج تلاش کر سکیں۔

ہم ایک بہت بڑی بین الاقوامی کوشش کا حصہ ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عالمی سائنس کی تمام روشنی کسی لیزر بیم کی طرح تقریباً نہ نظر آنے والے اس وائرس پر مرکوز ہے۔

جن سب سے بڑے ٹرائلز میں ہم لوگ فی الحال شامل ہیں ان میں ریکوری ٹرائل سب سے اہم ہے۔ اس میں پہلے ہی سے ملک بھر میں 10 ہزار سے زیادہ مریضوں کی شامل کیا گیا جو کہ یا تو پلاسیبو یعنی دوا کے نام پر بے اثر مادہ لے رہے ہیں یا مختلف دوائیوں میں سے ایک لے رہے ہیں۔

گذشتہ ہفتے بی آر آئی میں ہم نے برطانیہ میں پہلے مریض کو ایک چھوٹے سے ٹرائل کے لیے منتخب کیا تاکہ اس بات کی جانچ کی جا سکے کہ آیا ایسٹرا زینیکا کی تیار کردہ نئی دوا محفوظ اور مؤثر ہے یا نہیں۔

یہ متعدد چھوٹے چھوٹے ٹرائلز میں سے ایک ہے جسے مشترکہ طور پر ایکورڈ ٹرائل کہا جا رہا ہے اور اس کے تحت ریکوری ٹرائل میں مزید ادویات کو شامل کیا جا سکتا ہے۔

کورونا وائرس: پاکستان میں پلازما تھیراپی سے علاج کا پہلا تجربہ

وہ مریض جن کی کورونا وائرس جان نہیں چھوڑ رہا

کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟

’لوگ کہتے ہیں ہم مریض مارنے کے پیسے لیتے ہیں‘

امید ہے کہ ایسٹرا زینیکا کی یہ دوا جس کا ابھی تک کوئی نام نہیں ہے اس سے مریضوں کے ایک چھوٹے سے گروپ میں مدافعتی نظام کی سرگرمی کو ایک خطرناک حد سے تجاوز کرنے سے روکنے میں مدد ملے گی جس کے تحت جسم صدمے کی حالت میں چلا جاتا ہے اور پھیپھڑوں، دل، خون کی نالیوں اور گردوں جیسے اہم اعضا کو بند کرنے کا سبب ہوتا ہے۔

اس انتہائی ردعمل یا اوور ری ایکشن کو طبی اصطلاح میں 'سائٹوکائن سٹورم' کہا جاتا ہے۔ سائٹوکائنز ایسے مالیکیولز ہیں جو انفیکشن کی موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں تاکہ جسم کا مدافعتی نظام اس سے لڑنے کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ یہ نئی دوا آئی ایل 33 (یا انٹرلیوکن-33) نامی سائٹوکائن کو روک دیتی ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹ MARK WINTERBOURNE
Image caption مارک ونٹربورن اور مو فرح کی دوستی

مارک ونٹربورن نے آئی ایل بلاکر کے استعمال کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا ہے۔ وہ ہسپتال میں ان علامتوں کے ساتھ پہنچے جس کے بارے میں پہلے یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ یہ پتے کی پتھری کی وجہ سے ہے۔

جب ان کا کووڈ 19 کا ٹیسٹ مثبت آیا تو ہمیں احساس ہوا کہ یہ وائرس اس مسئلے کا ممکنہ ذریعہ ہے۔ (کووڈ 19 ایک ایسی بیماری ہے جس کی متعدد علامات ہیں۔ لیکن یہ ایک غیر معمولی معاملہ ہے!) مارک کا کہنا ہے کہ رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کرنا ان کی فطرت میں شامل ہے۔ گریٹ نارتھ رن کے لیے رضاکار فوٹو گرافر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے وہ سر مو فرح سے ملے اور ان کے ساتھ ان کی دوستی ہو گئی۔

میرے خیال سے کووڈ 19 کے لیے کسی ویکسین کی تیاری میں ابھی کم از کم ایک سال لگ سکتا ہے لہٰذا علاج کی تلاش کے لیے یہ ٹرائلز انتہائی اہم ہیں۔

ڈاکٹروں کو امید ہے کہ مستقبل قریب میں کوئی شخص ابتدائی علامات کے ساتھ ٹیسٹنگ سینٹر میں آتا ہے تو اس کے تھوک کو لے کر فوری جانچ کی جائے گی اور اس سے قبل کہ انتہائی خراب علامات ظاہر ہوں انھیں مؤثر ادویات کا نسخہ دیا جا سکے گا۔

اس مجموعے میں ایک اینٹی وائرل دوا، مدافعتی نظام کو قابو میں رکھنے والی دوا، اور اندرونی سوزش روکنے والی دوا شامل ہوسکتی ہے۔

جن اینٹی وائرل ادویات کی جانچ کی جارہی ہے ان میں سے کوئی پھیپھڑوں کے اندر کورونا وائرس کو داخل ہونے سے روک سکے گی جبکہ دوسری قسم کی دوا جسم میں اس کی افزائش کو روکنے میں مدد کر سکتی ہے۔

قوت مدافعت کو قابو میں رکھنے والی دوائیں وائرس کے خلاف مدافعتی نظام کے ضرورت سے زیادہ رد عمل کو روکنے میں مدد دیں گی۔ اگر اکورڈ ٹرائلز کی آئی ایل-33 بلاکر مؤثر ہوتی ہے تو یہ پھیلاؤ کو روکنے کی اہل ہوگی۔

مانعِ سوزش دواؤں میں سٹیرائڈز شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیکسامیتھاسون ان پہلی ادویات میں شامل ہیں جنھیں ریکوری ٹرائلز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ کوئی ایک دوا کووڈ 19 کے علاج کے لیے ناکافی ہوگی۔ اس سے قبل ہم نے تپ دق یعنی ٹی بی کو ہرانے کے لیے مختلف دواؤں کے مجموعے کا استعمال کیا تھا۔ اسی طرح ہم اینٹی بایوٹکس اور ایچ آئی وی کے مرکبات کے ساتھ اینٹی ریٹرووائرل دواؤں کے مجموعے سے اس بیماری کو بھی شکست دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

بی آر آئی میں ماہرِ تنفس دنیش سرالیہ پرامید ہیں کہ موسم گرما کے اختتام سے پہلے مختلف ادویات کا ایک مرکب دستیاب ہوگا۔

انھوں نے کہا: 'مجھے لگتا ہے کہ ہمیں کم سے کم دو یا تین دوائیں ایسی ملیں گی جن کے ذریعے ان مریضوں کو ہسپتال آنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔‘

'آپ ٹیسٹ سینٹر جائیں گے اور پھر آپ کو ایک بار مرض کی تشخیص کے بعد دوائیں دی جائیں گی۔ موجودہ حکمت عملی کے تحت اگر آپ میں کووڈ وائرس پایا جاتا ہے تو آپ کو علیحدہ اور تنہا کر دیا جاتا ہے اور آپ کی حالت مزید خراب ہونے لگتی ہے، آپ کو بخار آ جاتا ہے، سانس لینے میں تکلیف ہونے لگتی ہے پھر آپ ہسپتال آتے ہیں۔ لیکن لوگوں کو بہت پہلے اور جلد دوا دینے کی ضرورت ہے۔'

ہماری دوسری کنسلٹنٹ ممکنہ طور پر ایک دوسری آزمائش میں حصہ لے رہی ہیں جس میں وہ اینٹی باڈیز کی عطیہ کنندہ کے طور پر شرکت کر رہی ہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹ DEBBIE HORNER
Image caption ڈیبی ہارنر

ڈیبی ہورنر کو وبا کی ابتدا میں ہی کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی اور وہ جلد ہی ٹھیک بھی ہو گئیں۔ دو ہفتے قبل جب ان کی طرح کے لوگوں کو پلازمہ کے لیے خون دینے کے لیے فون آیا تو وہ فوراً اس پر راضی ہوگئیں۔

محققین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا کووڈ 19 کی زد میں آ کر صحت یاب ہونے والے افراد کی اینٹی باڈی سے بھرپور پلازمہ سے دوسرے مریضوں کو اس مرض سے لڑنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ کام بھی ریکوری ٹرائل کا حصہ ہے۔

اب یہ پتہ چلا ہے کہ خون میں اینٹی باڈیز کی بلند سطح ہونے کا امکان ایسے مریضوں میں ہے جو کہ 35 سال سے زیادہ عمر کے مرد ہیں اور جو اس قدر بیمار ہوگئے ہیں کہ انھیں ہسپتال میں علاج کی ضرورت پڑی ہے۔

نیشنل ہیلتھ سروس کا بلڈ اینڈ ٹرانسپلانٹ شعبہ (این ایچ ایس بی ٹی) کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے ایسے عطیہ کنندگان کو تعینات کرنے کا خواہشمند ہے جو مرد ہیں یا 35 سال سے زیادہ عمر کے ہیں یا وہ اتنے بیمار ہوئے کہ انھیں ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔

ڈیبی میں علامات نسبتاً معتدل تھیں لہٰذا یہ ممکن ہے کہ ان کا اینٹی باڈیز پلازمہ اتنا مؤثر نہ ہو جتنا کہ تحقیقی ٹیم کو چاہے۔ ابھی نتائج سامنے نہیں آسکے ہیں۔ اگر ان کا پلازمہ چاہیے ہوگا تو وہ بخوشی عطیہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹ NHSBT
Image caption خون سے کشید کیا جانے والا پلازمہ قدرے نارنجی رنگ کا ہوتا ہے

وہ کہتی ہیں کہ 'یہ عام طور پر خون نکالے جانے سے مختلف ہے۔ اس میں وہ خون کے اندر کا پلازمہ والا حصہ لیتے ہیں اور اس کے بعد وہ آپ کو آپ کا سارا سرخ خلیہ اور خون کے دوسرے اجزا واپس کر دیتے ہیں جن کی ضرورت نہیں۔ بس ایسا لگتا ہے جیسے آپ کے اندر پانی کی ذرا سی کمی ہو گئی ہے۔'

ڈیبی کا کہنا ہے کہ اس کو ٹھیک کرنے کے لیے چند کپ چائے کے کافی ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں ٹرانسفیوژن میڈیسن کے پروفیسر مائک مرفی کا کہنا ہے کہ پلازمہ کی منتقلی کے بارے میں عام طور پر قدرے زیادہ سمجھنے کا یہ ایک بہت اچھا موقع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سنہ 2000 کی دہائی کے آخر میں پلازمہ کو جمع کیا گیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کیا یہ ایبولا اور فلو سے متاثرہ لوگوں کے علاج کا یہ ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔

'لیکن جب تک کہ کافی تعداد میں پلازمہ کے عطیہ کنندگان جو کہ انفیکشن سے صحت یاب ہوچکے تھے وہ سامنے آتے انفیکشن کے عروج کا دور جا چکا تھا اس لیے پلازمہ کے ذریعے علاج کی آزمائش کا موقع نہیں مل سکا۔ بہر حال کووڈ 19 کی وبا واضح طور پر مختلف ہے۔'



Comments

Popular Posts