مانیسا میں سات سو سال سے روایت ہے خوش حال لوگ تنور سے جتنی روٹیاں لیتے ہیں‘ یہ ان سے آدھی ان ٹوکریوں میں رکھ دیتے ہیںThere is a seven-year-old tradition in Manisa that people are happy, they just keep bread from the oven.

مانیسا (Manisa) ترکی کا ایک خوب صورت پرانا ٹاؤن ہے‘یہ ازمیر کے قریب واقع ہے اور اپنی فضا‘ قدرتی جنگلوں اور پرانے بازاروں کی وجہ سے پورے سینٹرل ایشیا میں مشہور ہے‘ خلافت عثمانیہ کے دور میں ترک اسے شہزاد گان کا شہر کہتے تھے‘ کیوں؟ کیوں کہ سلطان اپنے شہزادوں کو بچپن ہی میں مانیسا بھجوا دیتے تھے اور یہ جب تک دین اور دنیا دونوں علوم کے ایکسپرٹ نہیں ہو جاتے تھے یہ اس وقت تک مانیسا سے باہر نہیں جا سکتے تھے‘ فاتح قسطنطنیہ (استنبول) سلطان محمد فاتح کا بچپن بھی مانیسا میں گزرا تھا‘ سلطان فاتح کے والد سلطان مراد دوم نے سلطان محمد کی پرورش کی ذمے داری اپنی ایک ملکہ اور وزیر خلیل پاشا کو سونپ رکھی تھی‘ ملکہ عیسائی تھی اور وہ ایسٹرن یورپ کے کسی عیسائی بادشاہ کی بیٹی تھی‘ سلطان محمد کی اس سوتیلی ماں نے استنبول کی فتح میں اس کا بہت ساتھ دیا۔

سلطان جنگ تقریباً ہار چکا تھا اور اس نے صبح فوجوں کی واپسی کے اعلان کا فیصلہ کر لیا تھا مگر رات اس کی سوتیلی ماں اس سے ملنے آئی‘ اس نے اس کا حوصلہ بڑھایا اور سلطان فاتح نے اگلے دن قسطنطنیہ فتح کر لیا‘ سلطان فاتح کے اپنے شہزادے اور 1920 تک تمام سلطانوں کے شہزادے بھی مانیسا میں پروان چڑھے‘یہ شہر اس قدر اہم اور تاریخی تھا‘ ہم اپنے کھانوں میں زردہ کھاتے ہیں‘ زردہ مانیسا کی سویٹ ڈش تھا‘ یہ یہاں سے پوری اسلامی دنیا میں گیا تھا‘ پنجاب میں لوگ صدیوں سے ’’بھانڈہ‘‘ نام کی ایک ڈش بنا رہے ہیں‘ یہ ڈش مقوی ہوتی ہے‘ اس میں جڑی بوٹیاں‘ مغز‘ دیسی گھی اور گڑ ڈالا جاتا ہے۔

پنجابی اسے پکا کر اس کی ٹکیاں یا پنیاں بنا کر رکھ لیتے ہیں اور سردیوں میں کھاتے رہتے ہیں‘ یہ ڈش بیماریوں بالخصوص زچگی کے بعد خواتین کو ضرور کھلائی جاتی ہے‘ یہ ڈش بھی مانیسا سے ہندوستان آئی تھی اور اس کے موجد کسی نامعلوم عثمانی ملکہ کے ڈاکٹر تھے‘ وہ عثمانی ملکہ بیمار ہو گئی تھی‘ ڈاکٹروں نے اس کے لیے ایک مقوی خوراک تیار کی اور یہ اسے وہ خوراک کھلاتے رہے‘ ملکہ صحت یاب ہو گئی تو اس نے یہ ’’سیکرٹ ریسیپی‘‘ عام کرنے کا حکم دے دیا اور یوں وہ ریسیپی مانیسا سے نکل کر سینٹرل ایشیا اور وہاں سے ہندوستان آ گئی‘ مانیسا کی کش مش (سونگی) دنیا کی بیسٹ کش مش کہلاتی ہے‘ یہ پانچ سو سال تک صرف شاہی خاندان کے لیے بنائی جاتی تھی۔

یہ مانیسا کا تعارف تھا‘ مانیسا میں آج بھی صدیوں پرانے محلے‘ گلیاں اور محل موجود ہیں‘ آپ اگر شہر کے اندرونی حصوں میں جائیں تو آپ کو ہر طاق میں وقت ٹھہرا ہوا دکھائی دے گا اور آپ چند لمحوں میں پانچ سو سال پیچھے چلے جائیں گے‘ مجھے اس شہر میں گھومتے ہوئے لاتعداد نان بائی دکھائی دیے‘ پتا چلا مانیسا میں ترکی کے بہترین نان بنتے ہیں‘ یہ ڈبل روٹی کی طرح پھولے ہوئے ہوتے ہیں اور لوگ انھیں زیتون کے تیل یا لسی میں ڈبو کر کھا لیتے ہیں یا پھر قہوے کے ساتھ نگل لیتے ہیں‘ نان شہر کے تمام خاندانوں کی خوراک ہیں‘ ترکی سمیت سینٹرل ایشیا کے زیادہ تر ملکوں میں روٹی گھر پر نہیں بنائی جاتی‘ لوگ تنوروں یا نان بائیوں سے روٹی خریدتے ہیں جب کہ گھروں میں صرف سالن بنتے ہیں۔

افغانستان تک روٹیاں تنور سے لی جاتی ہیں‘ صرف ہم لوگ گھروں میں روٹی پکاتے ہیں‘ مانیسا میں بھی تنور ہیں تاہم ان تنوروں پر ٹوکریاں لٹکی ہوئی تھیں‘ گائیڈ نے بتایا مانیسا میں سات سو سال سے روایت ہے خوش حال لوگ تنور سے جتنی روٹیاں لیتے ہیں‘ یہ ان سے آدھی ان ٹوکریوں میں رکھ دیتے ہیں‘ ضرورت مند لوگ آتے ہیں‘ ٹوکری کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں ہمیں اتنی روٹیاں دے دیںاور تنور کے ورکرز چپ چاپ اتنی روٹیاں نکال کر انھیں دے دیتے ہیں‘ یہ لوگ اس عمل کو ’’میزبانی‘‘ کہتے ہیں اور یہ میزبانی مانیسا میں تقریباً سات سو سال سے جاری ہے‘یہ ایک دل چسپ روایت ہے‘ مجھے چند دن قبل میرے ایک دوست نے ترکی زبان کی ایک ویڈیو بھیجی‘ اس ویڈیو میں عوام سے اپیل کی جا رہی تھی کورونا وائرس کی وجہ سے کاروبار بند ہو گئے ہیں‘ لوگ بے روزگار ہیں لہٰذا ملک بھر کے خوش حال لوگ میزبانی کا عمل بڑھا دیں۔

ویڈیو میں روٹی کی ٹوکری اور تنور بھی دکھایا گیا تھا‘ مجھے یہ دیکھ کر بے اختیار مانیسا یاد آ گیا اور میں نے سوچا کیا ہم ملک میں میزبانی کا یہ سلسلہ شروع نہیں کر سکتے‘ ہم ہزاروں سال سے اس علاقے میں دال روٹی کھا رہے ہیں‘ کیا یہ ممکن نہیں ہم بھی تنوروں پر میزبانی کی ٹوکریاں لٹکا دیں اور صاحب ثروت ان میں روٹیاں رکھوا دیا کریں اور تنور کے مالک ضرورت مندوں کو عزت کے ساتھ یہ روٹیاں دے دیا کریں اور کیا یہ بھی ممکن نہیں ہم میں سے جو شخص افورڈ کر سکتا ہو وہ روزانہ دال پکائے‘ ضرورت مندوں کی فہرست بنائے اور عزت کے ساتھ ڈسپوزیبل ڈبے ان کے گھر پہنچا دے‘ ہم روز سو دو سو روٹیاں پکواکر اپنے گھروں‘ اپنے دفتروں کے سامنے ٹوکریوں میں بھی رکھ سکتے ہیں اور لوگ اپنی ضرورت کے مطابق آ کر روٹیاں لے جائیں‘ ہم چائے خانوں پر چائے کے اضافی کپوں کے پیسے بھی دے سکتے ہیں‘ چائے خانے کے مالکان اضافی کپوں کی پرچیاں بنا دیں‘ ضرورت مند آئیں‘ وہ پرچی کاؤنٹر پر دیں اور مفت چائے لے لیں‘کیا یہ ممکن نہیں؟۔

مجھے ایک بار ایران کے ایک گم نام قصبے میں جانے کا اتفاق ہوا‘ یہ اصفہان اور شیراز کے درمیان تھا‘ میں اس کا نام بھول گیا ہوں‘ مجھے وہاں رات گزارنا پڑ گئی‘ میں یہ جان کر حیران رہ گیا پورے قصبے میں فریج نہیں تھا‘ میزبان نے بتایا ہم خوراک کو فریج میں رکھنا گناہ سمجھتے ہیں‘ میں حیران رہ گیا‘ وہ بولا‘ شاہ ایران کے دور میں حکومت عوام کو فریج خریدنے کی ترغیب دیتی تھی‘ قسطوں پرٹی وی اور فریج مل جاتے تھے‘ پورے شہر نے فریج خرید لیے‘ ہمیں چند دن بعد احساس ہوا ہمارے دل تنگ ہو گئے ہیں‘ ہم نے فالتو کھانا فریجوں میں رکھنا شروع کر دیا ہے‘ لوگ اس سے پہلے اضافی کھانا ضرورت مندوں یا ہمسایوں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔

ہم میں سے ہر شخص اپنی ڈش ہمسائے کے گھر بھجواتا تھا اور ہمسائے اپنا کھانا ہمیں دے دیتے تھے‘ فریج نے میزبانی اور محبت کا یہ سلسلہ روک دیا‘ ہمارے امام صاحب نے ایک دن پورے شہر کو اکٹھا کیا اور فریج کو حرام قرار دے دیا‘ حکومت نے بہت زور لگایا لیکن ہم لوگوں نے اپنے فریج بیچ دیے یا پھر اپنے دور دراز کے رشتے داروں کو دے دیے‘ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ہمارے قصبے میں فریج واپس نہیں آیا‘ میں نے پوچھا اس سے کیا فائدہ ہوا؟ وہ ہنس کر بولا ’’بہت فائدہ ہوا‘ ہمارے پورے شہر میں کوئی شخص بھوکا نہیں سوتا‘ لوگ پیٹ بھر کرکھانا کھاتے ہیں اور باقی کھانا کسی نہ کسی مسکین‘ حاجت مند یا بھوکے کو دے دیتے ہیں‘ ہم لوگ ہمسایوں میں بھی کھانا بانٹتے ہیں یوں پورے شہر میں کوئی بھوکا نہیں رہتا‘‘ مجھے یہ روایت بھی اچھی لگی‘ آپ بھی یاد کریں ہم لوگ بھی فریج سے پہلے یہی کرتے تھے‘ مجھے اپنا بچپن یاد ہے۔

میں گھر کا سب سے بڑا بچہ تھا‘ میری والدہ روز مٹی کے برتنوں میں سالن اور روٹیاں ڈال کر دیتی تھی اور میں یہ کھانا درجن بھر لوگوں کے ٹھکانوں تک پہنچا کر آتا تھا‘ مجھے آج بھی یاد ہے لوگ ہاتھ دھو کر میرا انتظار کر رہے ہوتے تھے‘ لوگ اس زمانے میں مزدوروں اور مہمانوں کو جا کر کہتے تھے آپ نے کھانے کا بندوبست نہیں کرنا‘ آپ جب تک یہاں ہیں آپ کا کھانا ہمارے گھر سے آئے گا اور وہ کھانا ہم بچے پہنچاتے تھے لیکن پھر فریج آ گئے اور ان کے آتے ہی دل چھوٹے ہو گئے‘ لوگوں نے دو نوالے بھی فریجوں میں رکھنا شروع کر دیے‘ ڈیپ فریزر آیا تو قربانیوں کا گوشت بھی رضائیاں بن گیا‘ لوگ یہ بھی چار چار ماہ محفوظ رکھنے لگے۔

ہم اب یقینا فریج اور ڈیپ فریزر کو اپنی لائف سے نہیں نکال سکیں گے لیکن میری اس کے باوجود آپ سے درخواست ہے ملک میں جب تک کورونا کا رقص جاری ہے اور جب تک پوری دنیا کی معاشی سرگرمیاں بحال نہیں ہوجاتیں ہم کم از کم اس وقت تک کھانا فریج میں رکھنا حرام قرار دے دیں‘ ہم روز اپنے گھر کا سارا کھانا ضرورت مندوں تک پہنچاکر سوئیں‘ ہم اگر دس دس ضرورت مندوں کا بوجھ بھی اٹھا لیں‘ گھر مارک کر لیں اور ان گھروں تک روز کھانا پہنچا دیں یا پھر اگر یہ ممکن نہ ہو تو ہم ضرورت مندوں کو بتا دیں آپ روز ہمارے گھر سے کھانا لے جایا کریں تو آپ خود اندازہ کر لیجیے ہم کتنے لوگوں کی زندگی بدل دیں گے۔

ہماری وجہ سے کتنے لوگ پیٹ بھر کرسوئیں گے‘ ملک کتنا بدل جائے گا لیکن شاید یہ ممکن نہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہمارے ذہنوں میں بھوک ہے اور دماغی بھوکے دل سے نہیں سوچتے۔ ہمیں یہ بات پلے باندھنا ہو گی 2020 تاریخ کا بدترین سال ثابت ہوگا‘ دنیا اس سال نہیں کھل سکے گی‘ معیشت کو بھی بحال ہوتے ہوتے وقت لگے گا‘ ہمارے پانچ کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں‘ ایک کروڑ 85 لاکھ لوگ چند ماہ میں بے روزگار ہو جائیں گے اور ہم نے اگر اپنی حماقتیں اور ضد جاری رکھی تو ہمارے ملک کے کم از کم 10 لاکھ لوگ کورونا کا شکار ہوجائیں گے‘ پانچ سات لاکھ لوگ تو اس وقت بھی مریض ہیں‘ ہم بس انھیں ٹیسٹ نہیں کر رہے‘ حالات مزید سنگین ہو سکتے ہیں اور ہم اس وقت تک ان حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتے جب تک ہم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے لہٰذا آج ہی سے عادت بنا لیں‘ آپ یہ طے کر لیں ہمارے دائیں بائیں کوئی شخص کم از کم بھوکا نہیں سوئے گا‘ آپ یقین کریں ہم نے اگر یہ بھی کر لیا تو ہم کام یاب ہو جائیں گے‘ ہم کمال کر دیں گے

Comments

Popular Posts